فلسطین کی ایک کہانی
دردناک کہانی
زخموں سے بھرے خواب ( فلسطین کی ایک کہانی )

رات کا سناٹا تھا، ہر طرف خاموشی کا راج تھا، لیکن دلوں میں خوف اور آنکھوں میں آنسو کی لکیریں سجے ہوئے تھے۔ یوسف کی ماں، فاطمہ، نے چھوٹے یوسف کو سینے سے لگایا ہوا تھا۔ بمباری کی گونج نے ان کی زندگی کو ایک نہ ختم ہونے والے خوف میں بدل دیا تھا۔ غزہ کی تنگ و تاریک گلیوں میں اب کچھ بھی محفوظ نہیں رہا تھا۔ فاطمہ نے یوسف کو دیکھتے ہوئے کہا،
"بیٹا، اللہ سے دعا کرو کہ یہ رات ہمارے لیے آخری نہ ہو۔"
یوسف کے چہرے پر معصومیت تھی، مگر آنکھوں میں ایک عجیب سی بے چینی۔ "ماں، کیا ہم کبھی بھی امن میں رہیں گے؟ کیا ہم کبھی بھی اپنے دوستوں کے ساتھ کھیل پائیں گے؟" یوسف نے معصومیت سے پوچھا۔ فاطمہ نے اپنے آنسو ضبط کرتے ہوئے کہا، "ان شاء اللہ، بیٹا، ایک دن ضرور آئے گا جب تم آزاد فضاؤں میں سانس لو گے۔" اچانک ایک زور دار دھماکہ ہوا، اور گھر کی دیواریں لرزنے لگیں۔ دھماکے سے کھڑکیاں ٹوٹ گئیں، اور کمرے میں گرد و غبار بھر گیا۔
"اِم"! (اماں) یوسف نے خوف سے چیختے ہوئے ماں کو پکڑ لیا۔
فاطمہ نے یوسف کو مضبوطی سے پکڑ لیا۔ دھماکے کے بعد شور و غل برپا ہوا، اور لوگ اپنی جانیں بچانے کے لیے بھاگنے لگے۔ یوسف کی آنکھوں میں خوف بھر گیا، اور وہ اپنی ماں سے لپٹ گیا۔
"يا أمي، شو رح يصير فينا؟"(ماں، ہمیں کیا ہوگا؟) یوسف نے خوف سے کانپتے ہوئے کہا۔
"الله معنا يا إبني"! (اللہ ہمارے ساتھ ہے، بیٹا)۔ فاطمہ نے اپنے دل کو مضبوط کرتے ہوئے جواب دیا۔
باہر سے بموں کے گرنے کی آوازیں آ رہی تھیں، اور آسمان پر جنگی طیارے گرج رہے تھے۔ صبح ہوئی تو یوسف کو لے کر فاطمہ نے گھر سے نکلنے کا ارادہ کیا تاکہ محفوظ مقام تک پہنچ سکیں۔ فاطمہ کو اپنے بیٹے کی جان کی فکر ستا رہی تھی۔ لیکن ،جیسے ہی وہ گھر سے باہر قدم رکھتی ہیں، اُن کی آنکھوں کے سامنے ایک دل دہلا دینے والا منظر آتا ہے۔ ہر طرف تباہی پھیل چکی تھی۔ عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن چکی تھیں، اور زخمی بچے اور عورتیں سڑکوں پر بے یار و مددگار پڑی تھیں۔ یوسف کی آنکھیں بے یقینی سے وہ منظر دیکھ رہی تھیں۔ اُس کا چھوٹا سا دل خوف سے کانپ رہا تھا۔ اچانک ایک اور دھماکہ ہوا، اور فاطمہ نے یوسف کو گود میں اٹھایا اور بھاگنا شروع کر دیا۔ وہ بس ایک ہی دعا کر رہی تھی کہ وہ کسی طرح اپنے بیٹے کو اس جہنم سے بچا لے۔
"ماں! مجھے ڈر لگ رہا ہے"۔ یوسف نے روتے ہوئے کہا۔
"بیٹا، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ بس دعا کرو۔" فاطمہ نے آنسو چھپاتے ہوئے کہا۔
لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ وہ ابھی زیادہ دور نہیں گئے تھے کہ ایک اور دھماکہ ہوا، اور اس بار فاطمہ کو اپنے جسم پر شدید چوٹ محسوس ہوئی۔ وہ زمین پر گر گئیں، اور یوسف اُن کے ساتھ ہی گر گیا۔
"ماں! ماں! اُٹھو! ہمیں یہاں سے جانا ہے!" یوسف نے چیخ کر کہا، لیکن فاطمہ کی سانسیں اب ختم ہو چکی تھیں۔
یوسف نے اپنی ماں کے بے جان جسم کو ہلانے کی کوشش کی، لیکن سب کچھ بے سود تھا۔ اُس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ اُس کے سامنے اُس کی ماں کی لاش تھی، اور وہ خود بے بسی سے بھری اس دنیا میں تنہا رہ گیا تھا۔ یہ فلسطین کی سرزمین پر ایک اور مظلوم کہانی تھی، جہاں بچوں کے خواب خون میں ڈوب چکے تھے، اور ہر لمحہ موت کا سایہ تھا۔ فلسطینی مسلمان اپنے پیاروں کو کھو رہے ہیں، اور اُن کا مستقبل بمباری اور تباہی کے سائے میں ڈوبتا جا رہا ہے۔ یہ کہانی ہر اُس بچے کی داستان ہے جو اپنی ماں کے آنچل میں محفوظ رہنا چاہتا ہے، لیکن بدقسمتی سے، جنگ اور ظلم نے اُن سے یہ حق چھین لیا ہے۔
Comments
Post a Comment