راستے کا حق

 "راستے کا حق"

علی ایک شریف اور نیک دل لڑکا تھا، محلے میں سب اس کی تعریف کرتے تھے۔ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ وقت گزارنا پسند کرتا تھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر بھی عمل کرتا تھا۔ علی اکثر شام کے وقت محلے کی تنگ گلی کے کنارے بیٹھتا تھا۔ گلی میں زیادہ جگہ نہیں تھی، اور جب وہ اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھتا، تو آنے جانے والوں کو اکثر مشکل پیش آتی تھی۔ کبھی کوئی موٹر سائیکل گزرنے کی کوشش کرتا، تو رکنا پڑتا، اور کبھی کوئی پیدل چلنے والا بزرگ یا خاتون مشکلات کا سامنا کرتے۔ علی کو اس بات کا احساس نہیں تھا کہ اس کا یہ عمل دوسروں کے لیے تکلیف کا باعث بن رہا ہے۔ اس کے دوست تو بس ہنسی مذاق اور گپ شپ میں مگن رہتے تھے، اور کوئی اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیتا تھا۔ ایک دن علی کی امی، جو کہ ایک سمجھدار اور دیندار خاتون تھیں، نے اسے اور اس کے دوستوں کو گلی میں بیٹھے دیکھا۔ انہوں نے دیکھا کہ ایک بزرگ خاتون گلی سے گزرنے کی کوشش کر رہی تھیں، لیکن راستہ تنگ ہونے کی وجہ سے انہیں رکنا پڑا۔ علی کی امی نے سوچا کہ اس معاملے میں وہ علی کی اصلاح کریں گی۔ شام کو جب علی گھر آیا ،علی کی امی نے اس سے نرمی سے کہا، "بیٹا! میں نے آج تمہیں اور تمہارے دوستوں کو گلی میں بیٹھا دیکھا۔ تمہیں اندازہ ہے کہ اس سے لوگوں کو کتنی تکلیف ہوتی ہے؟" علی نے حیرانی سے جواب دیا، "امی، ہم تو صرف بیٹھے تھے، ہمیں تو کسی نے کچھ نہیں کہا اور نہ ہم نے کسی کو کچھ کہا۔" اس کی امی نے پیار سے اس کا کندھا تھپتھپایا اور کہا، "بیٹا! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں راستے کا حق ادا کرنے کی تعلیم دی ہے۔  "راستے کا حق "؟ علی نے امی سے سوال کیا

"حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"راستوں میں بیٹھنے سے بچو۔"


صحابہ نے عرض کیا: "یا رسول اللہ! وہاں تو ہماری بیٹھک ہوتی ہے، ہم وہاں باتیں کرتے ہیں۔"


نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 "اگر تمہیں وہاں بیٹھنا ہی ہے تو راستے کا حق ادا کرو۔"


صحابہ نے عرض کیا: "راستے کا حق کیا ہے؟"


آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 "نظروں کو جھکانا، سلام کا جواب دینا، بھلائی کا حکم دینا، برائی سے روکنا، اور راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانا۔(صحیح بخاری: 2465، صحیح مسلم: 2121)


بیٹا میں جانتی آپ کا مقصد کسی کو تکلیف دینا نہیں ہوتا لیکن آپ کے اس عمل سے جانے انجانے میں لوگوں کو تکلیف ہو رہی ہے ۔"امی نے بہت پیار اور شفقت سے علی کو سمجھایا"۔ علی کو حدیث سن کر جھٹکا لگا۔ وہ شریف دل لڑکا تھا اور ہمیشہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل کرنے کی کوشش کرتا تھا، مگر اس بات کا احساس نہ تھا کہ اس کا یہ معمولی عمل دوسروں کے لیے مسئلہ بن رہا ہے۔ اس نے فوراً امی سے معذرت کی اور کہا، "امی، مجھے بالکل اندازہ نہیں تھا کہ ہم لوگوں کے لیے تکلیف کا باعث بن رہے ہیں۔ میں آئندہ خیال رکھوں گا کہ ہم گلی میں نہ بیٹھیں اور اگر بیٹھنا ہو تو ایسی جگہ بیٹھیں جہاں کسی کو مشکل پیش نہ آئے۔"


علی نے اگلے دن اپنے دوستوں سے بھی بات کی اور انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سنائی،

 "راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانا ایمان کا حصہ ہے۔" (صحیح بخاری)


اس دن کے بعد، علی اور اس کے دوستوں نے تنگ گلی میں بیٹھنا چھوڑ دیا۔ جب بھی ملنا ہو یا تو مسجد کے پاس بیٹھ جاتے یا کسی پارک میں  اور جب بھی وہ کہیں بیٹھتے، تو خیال رکھتے کہ کسی کو ان سے تکلیف نہ ہو۔

Comments

Contact Form

Name

Email *

Message *