روبوٹس کا راج

 سائنسی کہانی (روبوٹس کا راج)

احمد زخمی حالت میں سڑک پر پڑا تھا۔ اس کے جسم سے ٹپکتا خون اب اُس کی توانائی کو ختم کر رہا تھا، اور ذہن پر تاریکی چھا رہی تھی۔ وہ مدد کے لیے چیخ رہا تھا لیکن سڑک ویران تھی، اور کسی انسان کا دور دور تک نام و نشان نہ تھا۔ سورج غروب ہو چکا تھا، اور اندھیرا زمین پر اپنا سایہ ڈال رہا تھا۔ اچانک، احمد کو ایک دھندلی سی روشنی دکھائی دی۔ اس کی سانسیں بوجھل ہو رہی تھیں، لیکن جو منظر اُس نے اپنی نیم بند آنکھوں سے دیکھا، وہ حیران کن تھا۔ سامنے سے چھوٹے بڑے کئی ربوٹس اس کی طرف آ رہے تھے۔ کچھ چھوٹے، جن کی آنکھیں نیلی روشنی میں چمک رہی تھیں، اور کچھ بڑے، جو خاموشی سے حرکت کر رہے تھے۔ احمد بڑبڑایا، "ر... رہو... ربوٹ..." احمد کی آنکھیں دھندلا رہی تھیں۔ خون کا بہاؤ اس کے جسم کو کمزور کر چکا تھا اور اس کی سانسیں مدھم ہوتی جا رہی تھیں۔ وہ بمشکل "ربوٹ..." کہہ کر بے ہوش ہو گیا۔ تین چمکتے ہوئے، دھاتی جسم والے ربوٹ اس کے قریب آئے، ان کے چہروں پر کسی قسم کا کوئی جذباتی تاثر نہ تھا۔ ان کی آنکھوں کی جگہ سرخ لائٹس جل بجھ رہی تھیں، اور ان کے ہاتھوں میں جدید قسم کے طبی آلات تھے۔

ایک ربوٹ نے اپنی دھاتی انگلیوں سے احمد کے بازو پر لگی بڑی چوٹ کا معائنہ کیا۔

 اور اپنے ساتھیوں کو مشینی آواز میں حکم دیا:

 "فوراً علاج شروع کرو، وقت کم ہے۔"

 دوسرے ربوٹ نے احمد کے جسم پر موجود زخموں کو اسکین کیا، اور تیسرے نے فوری طور پر ایک مخصوص آلہ نکالا، جس کی مدد سے اس کے زخموں پر پٹی باندھنا شروع کر دی۔ ربوٹوں نے حیرت انگیز تیزی کے ساتھ کام کیا۔ ایک ربوٹ نے اپنی مشین سے ایک مائع خارج کیا جو احمد کے جسم میں داخل ہوتے ہی درد کو کم کرنے لگا۔ اس کے بعد وہ ایک چھوٹا سا نیلا چپ احمد کی گردن پر لگا دیتا ہے، جس سے خون کا بہاؤ رکنے لگا اور احمد کے چہرے کا رنگ قدرے بحال ہونے لگا۔ "آپریشن کامیاب ہو گیا، مریض کو ہوش میں لانا ضروری ہے،" ایک ربوٹ نے سرد لہجے میں کہا۔  پھر دوسرے ربوٹ نے ایک انجکشن نکال کر احمد کے بازو میں لگایا، جس سے احمد کی آنکھیں ہلکی سی کھلنے لگیں۔"میں کہاں ہوں؟" احمد نے حیرت سے سرگوشی کی۔ سامنے موجود ربوٹوں کو دیکھ کر وہ گھبرا گیا، مگر اس کی حالت ایسی نہیں تھی کہ وہ بھاگ سکے۔"فکر نہ کرو، تم محفوظ ہو،" سب سے آگے کھڑے ربوٹ نے صاف انسانی لہجے میں کہا، "ہم تمہیں یہاں مرنے نہیں دیں گے۔" احمد حیرت اور خوف کے ملے جلے جذبات کے ساتھ انہیں دیکھ رہا تھا۔ "تم... تم کون ہو؟" احمد نے بمشکل کہا۔ "ہم میڈیکل ربوٹ ہیں،" ربوٹ نے جواب دیا، "ہماری ڈیوٹی ہے کہ سڑکوں پر زخمیوں کو تلاش کر کے ان کا علاج کریں۔ تم بہت خوش قسمت ہو کہ ہم نے تمہیں وقت پر ڈھونڈ لیا۔" احمد حیرت سے ان ربوٹوں کو دیکھتا رہا۔ یہ سب کچھ اسے کسی فلم کا منظر لگ رہا تھا۔ ربوٹوں نے اس کی دیکھ بھال مکمل کر لی اور اس کے جسم کو ایک مخصوص سٹریچر پر لٹا کر اٹھانے لگے "کہاں لے جا رہے ہو مجھے؟" احمد نے پوچھا۔ "تمہیں ہمارے ہیڈکوارٹر لے جا رہے ہیں۔ وہاں مزید علاج ہوگا۔ تمہیں آرام کی ضرورت ہے،" ایک ربوٹ نے جواب دیا۔ احمد نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور دل میں شکر ادا کیا کہ اس کی جان بچ گئی تھی۔ وہ جانتا تھا کہ دنیا بہت بدل چکی ہے، مگر آج اس نے اپنی آنکھوں سے وہ ٹیکنالوجی دیکھی جو اسے حیران کر گئی تھی۔ وہ سوچنے لگا کہ مستقبل کی دنیا میں انسان اور ربوٹ مل کر کیسے ایک دوسرے کی مدد کر رہے ہیں۔ ربوٹ اسے لے کر اندھیرے میں گم ہو گئے، اور احمد کا ایک نیا سفر شروع ہوا .

Comments

Contact Form

Name

Email *

Message *